Tuesday, 5 January 2016

سعودی عرب ایران کشیدگی اور پاکستان


حال ہی میں سعودی عرب عرب میں ایک شیعہ عالم شیخ النمر کو سزائے موت دی گئی جس پہ دنیا بھر سے مختلف طرح کا ردعمل نظر آیا . کسی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تو کسی نے اسے سعودی ریاست کا اندرونی معاملہ قرار دیا. سب سے زیادہ شدید ردعمل ایران میں دیکھنے میں آیا . ایران میں سعودی قونصلیٹ پہ بلوائیوں نے حملہ کر دیا قونصلیٹ کی عمارت کو جلا دیا گیا . ردعمل میں سعودیہ نے بھی ایرانی سفیر کو بھی ملک سے بےدخل کر دیا اور تمام طرح کے سفارتی اور اقتصادی تعلقات ختم کر دیے
شعیہ عالم چونکہ سعودی شہری تھا اور سعودی قانون کے تحت سزا ہوئی. سزا غلط ہے یا درست ہے یہ الگ بحث ہے لیکن یہ خالصتاً سعودیہ کا اندرونی معاملہ تھا اگر ایران کو تشویش بھی تھی تو مہذب طریقے سے سفارتی ذرائع اور سفارتی آداب اپناتا. ایران نے سرکاری اور نجی طور پہ اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں خطے میں پہلے سے پھیلی شدید کشیدگی میں اضافہ ہو گیا اور خطرات کے بادل مزید گہرے ہو گئے
اس واقعے کا اثر باقی مسلم ممالک کی طرح پاکستان پہ بھی ہوا اور یہاں بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے. پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور
ایم کیو ایم نے تو سعودیہ کی مذمت کی. سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہ بھی کافی تُند و تیز مباحثے ہو رہے ہیں. جس میں مسلکی اختلاف کا عنصر غالب ہے. سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ ٹویٹر پہ تو باقاعدہ بائیکاٹ حج کا ٹرینڈ چلا جس کے مقابلے میں لبیک اللھم لبیک کا ٹرینڈ چلا. سعودی حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مسلک پہ اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے میں خود شدید اختلاف رکھتا ہوں میں شاہی خاندان کو ایک قابض اور آمر خاندان سمجھتا ہوں. سب جانتے ہیں کہ مملک سعود کیسے وجود میں آئی اس کے باوجود سرزمین مقدس سے پیار مسلمانوں کے دلوں میں فطری ہے. دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کی سزمین حجاز سے عقیدت اور محبت کو کم نہیں کر سکتی.بیت اللہ اور مسجد نبوی سے محبت ہمارے ایمان کا سب سے اہم جزو ہے.
اب اگر عرب دنیا کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک طرف سعودی عرب نے پینتیس اسلامی ممالک کی اتحادی فورس تشکیل دی ہے جو داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کا قلع قمع کرے گی یمن کے حالات انتہائی مخدوش ہیں شام و عراق میں سعودیہ پہ داعش کو سپورٹ کرنے کا الزام جبکہ ایرانی انقلابی گارڈز کی ان ملکوں میں کاروائیاں بھی ڈھکی چھپی نہیں ایران سے باقاعدہ ریکروٹنگ اور فنڈنگ ہو رہی ہے نیز کئی سرکردہ انقلابی گارڈز کی شام میں ہلاکتیں بھی اسکا ثبوت ہیں.


پسمنظر میں یہ حالات اور شیخ نمر کی سزائے موت کے بعد سعودیہ ایران کشیدگی میں پاکستان کا کیا کردار ہونا چاہیے.؟
میں سمجھتا ہوں پاکستان کو ایک ذمہ دار جموری ریاست ہونے کے ناطے دونوں برادار ممالک میں کشیدگی کم کروانے اور تعلقات معمول پہ لانے کیلیے کوششیں تیز کرنی چائیں. خدانخواستہ اگر ایسی نوبت آ جاتی ہے کہ پاکستان کو کسی ایک فریق کی جانب جھکنا مجبوری بن جاتا ہے تو اس صورت میں اپنے مفادات کو مدنظر رکھیں. ملکوں کے درمیان دوستیاں مذہب یا مسلک کی وجہ سے نہیں بلکہ مفادات کی وجہ سے ہوتی ہیں. اسکی بہترین مثال اسرائیل اور بھارت کے ساتھ اکثر اسلامی ممالک کے تعلقات ہیں. عرب اسرائیل اور پاک بھارت جنگوں سے کوئی فرق نہیں پڑا.
اگر مفادات کی بات کریں تو ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ سرحد ملنے کے باوجود ہمارے تعلقات مثالی نہیں. باہمی تجارت بھی دو سو بیس کروڑ ڈالر سالانہ سے زیادہ نہیں. پاکستان پہ بڑے بڑے مشکل وقت آئے جنگیں ہوں یا زلزلہ یا سیلاب کی ذمہ داریاں ہمیں ایران کا اتنا نمایاں کردار نظر نہیں آیا. اقتصادی پابندیوں کے دور میں تیل کی مد میں بھی ہمارے کوئی مدد نہیں کہ بلکہ ایٹمی رازوں کے حوالے سے ہماری پیٹ پہ چھرا گھونپا گیا جس کی سزا ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج تک بگھت رہے ہیں.
اسکے برعکس اگر ہم سعودی عرب کی بات کریں تو تعلقات مثالی نظر آتے ہیں. باہمی تجارت کا حجم بھی اچھا خاصہ ہے. تقریباً دس لاکھ رجسٹرڈ پاکستانی تارکین وطن سعودی عرب میں محنت مزدوری و خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد یا اس سے بھی زیادہ غیر رجسٹرڈ سعودیہ میں موجود ہے. یہ پاکستانی بلواسطہ یا بلاواسطہ ایک کروڑ سے زائد پاکستانیوں کا پیٹ پالتے ہیں.
اسکے علاوہ قدرتی آفات ہوں زلزلہ یا سیلاب ہو یا جنگی صورتحال سعودیہ نے پاکستان کی ہر ممکن امداد کی. انیس سو اٹھانوے کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے جب پاکستان بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہوا تو یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے تیل کی مد میں ہماری مدد کی. اسکے علاوہ جب ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے اقتدار پہ قبضہ کر لیا اور موجود وزیراعظم اور مقبول عوامی لیڈر میاں نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا تو سعودیہ نے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا . کیونکہ شاہی خاندان مشرف کے ناپاک عزائم بھانپ چکا تھا اس ڈر سے کے یہ نوازشریف کو قتل نہ کردے نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا اور شاہی خاندان نے تقریباً سات سال شریف خاندان کی میزبانی و مہمان نوازی کی.
ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بہت سوچ سمجھ کر قدم رکھے. اور انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے ماضی کا ریکارڈ ضرور دیکھے.
اللہ ہماری قیادت کو بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق دے.
اللہ مسلم امہ کواتحاد و اتفاق نصیب فرمائے.
اختلافات بات جیت سے حل کرنے کی توفیق دے.


آمین
.

2 comments:

  1. بہترین تحریر بھائی جان امید ہےاس طرح کی مزید پڑھنےکا موقع ملےگا

    ReplyDelete
  2. 😠😠😠😠😠😠😠😠😠

    ReplyDelete