میرا تعلق مانسہرہ کے ایک دورافتادہ گاؤں سے ھے
جوکے ایک پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ھے. میرا گاؤں علاقے کی سیاست کا مرکز ہے . بلدیاتی انتخابات میں چیرمین وغیرہ کا عہدہ ہمارے بزرگوں کے پاس ھی رھا ھے. اسکے علاوہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدواروں کی جیت میں بھی ہمارے بڑوں کا کردار کافی اہم ھوتا تھا اور کسی حد تک اب بھی ھے.لیکن ہمارے گاؤں کو کوئی پکی سڑک آج تک نصیب نہ ھوئی اسکی وجہ مقامی لوگوں کی آپسی چپقلش اور اختلافات ھیں.
اور لوگ دوردراز کے سفر اور سودا سلف لانے کیلیئے گھوڑوں گدھوں اور خچروں کا استعمال کرتے تھے.
میرے دادا کے پاس خاندان کے دیگر بزرگوں کی طرح ایک گھوڑی تھی جس پہ سوار ہو کر نزدیکی قصبے میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتے تھے.
میں جب گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتا تو خوب سواری کرتا تھا. .
اس گھوڑی نے ایک خچر کو جنم دیا جو کہ مادہ تھی. میرے دادا جی نے اعلان کیا تھا کہ اس گھوڑی کا پہلا بچہ خدا واسطے کسی کو دے دیں گے جو کہ علاقے کی ایک روایت بھی ھے کہ کسی بھی جانور گائے بھینس وغیرہ کی تولید نہ ھو رہی ھو تو پہلے بچھڑے,کٹے میمنے وغیرہ کو منت کے طور پر خدا واسطے کسی کو دےدیا جاتا ھے. چنانچہ وہ خچر بھی بعد میں کسی کو دے دی گئی.
خچر گھوڑی اور گدھے کے ملاپ سے پیدا ھوتا ھے اور قد میں گدھے سے بڑا اور گھوڑے سے چھوٹا ھوتا ھے. انتہا درجے کا ضدی جانور اور اس کو سدھانا جان جوکھوں کا کام ھے. اسلئے یہ سواری کیلیے کم مال برداری کیلیے زیادہ استعمال ھوتا ھے. . بڑے کہتے ھیں کہ اس کا سوار اگر اس پر سے نیچے گر جائے تو اسکی کوشش ھوتی ھے اسے ہلاک کردے.
واللہ اعلم.
اگر یہ سدھر جائے تو انتہائی مفید جانور ھے فوج دشوار گزار پہاڑی راستوں میں اس سے مال برداری کا کام لیتی ھے اور ہمارے علاقے میں جنگلات کی صفائی کا دہندہ عروج پر ھے قیمتی لکڑی اسی پہ لاد کر ھی لے جائی جاتی ھے اسلیے اسکی قیمت بھی لاکھوں میں ھوتی ھے.
سارے پسمنظر کا مقصد یہ ھے کہ خچر ایک اڑیل ضدی اور بے کار جانور ھے لیکن جب اسکو سدھار لیا جاتا ھے تو یہ انتہائی مفید اور اپنی اصل سے بھی کارآمد جانور بن جاتا ھے.
انسان جب جوانی میں قدم رکھتا ھے تو اس میں بھی مستی جوانی کا جوش اور اڑیل پن بھی ھوتا ھے. اگر اسکی اچھی تعلیم و تربیت ھو جائے اور اسے ایک اچھی سمت مل جائے تو وہ اپنے خاندان اور معاشرے کا سرمایہ بن جاتا ھے.
اور اگر تربیت میں کمی یہ غلط سمت میں نکل جائے تو معاشرے کا بگاڑ ھے.
ہمارے ملک کا ایک کھلاڑی ورلڈ کپ جیت لایا. سارے ملک کے بچے جوان بزرگ اسکے گرویدہ ھو گئے.
پھر وہ کپتان سیاست میں آئے. اس ملک کی ایلیٹ کلاس کے نسبتاً بگڑے نوجوان اور نچلے طبقے کے کچھ بےسمت نوجوان آپ کا ٹاررگٹ بنے.
کپتان صاحب ان نوجوانوں کو ہر چیز کی انتہا تک لے گئے. کیا گالی گلوچ کیا بدتمیزی یہاں تک کے مخالف کی جان تک لینے کوتیار ھو جاتے ھیں.
,,بالکل ضدی اڑیل خچر جیسے,,
نوٹ. میری پہلی کوشش ھے. املا کی بیشمار غلطیاں ھونگی اور ربط کی بھی کمی ھے. بہت قلیل وقت میں لکھا ھے. اصلاح و راہنمائی کرکے حوصلہ آفزائی کیجیے. شکریہ.
جوکے ایک پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ھے. میرا گاؤں علاقے کی سیاست کا مرکز ہے . بلدیاتی انتخابات میں چیرمین وغیرہ کا عہدہ ہمارے بزرگوں کے پاس ھی رھا ھے. اسکے علاوہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدواروں کی جیت میں بھی ہمارے بڑوں کا کردار کافی اہم ھوتا تھا اور کسی حد تک اب بھی ھے.لیکن ہمارے گاؤں کو کوئی پکی سڑک آج تک نصیب نہ ھوئی اسکی وجہ مقامی لوگوں کی آپسی چپقلش اور اختلافات ھیں.
اور لوگ دوردراز کے سفر اور سودا سلف لانے کیلیئے گھوڑوں گدھوں اور خچروں کا استعمال کرتے تھے.
میرے دادا کے پاس خاندان کے دیگر بزرگوں کی طرح ایک گھوڑی تھی جس پہ سوار ہو کر نزدیکی قصبے میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتے تھے.
میں جب گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتا تو خوب سواری کرتا تھا. .
اس گھوڑی نے ایک خچر کو جنم دیا جو کہ مادہ تھی. میرے دادا جی نے اعلان کیا تھا کہ اس گھوڑی کا پہلا بچہ خدا واسطے کسی کو دے دیں گے جو کہ علاقے کی ایک روایت بھی ھے کہ کسی بھی جانور گائے بھینس وغیرہ کی تولید نہ ھو رہی ھو تو پہلے بچھڑے,کٹے میمنے وغیرہ کو منت کے طور پر خدا واسطے کسی کو دےدیا جاتا ھے. چنانچہ وہ خچر بھی بعد میں کسی کو دے دی گئی.
خچر گھوڑی اور گدھے کے ملاپ سے پیدا ھوتا ھے اور قد میں گدھے سے بڑا اور گھوڑے سے چھوٹا ھوتا ھے. انتہا درجے کا ضدی جانور اور اس کو سدھانا جان جوکھوں کا کام ھے. اسلئے یہ سواری کیلیے کم مال برداری کیلیے زیادہ استعمال ھوتا ھے. . بڑے کہتے ھیں کہ اس کا سوار اگر اس پر سے نیچے گر جائے تو اسکی کوشش ھوتی ھے اسے ہلاک کردے.
واللہ اعلم.
اگر یہ سدھر جائے تو انتہائی مفید جانور ھے فوج دشوار گزار پہاڑی راستوں میں اس سے مال برداری کا کام لیتی ھے اور ہمارے علاقے میں جنگلات کی صفائی کا دہندہ عروج پر ھے قیمتی لکڑی اسی پہ لاد کر ھی لے جائی جاتی ھے اسلیے اسکی قیمت بھی لاکھوں میں ھوتی ھے.
سارے پسمنظر کا مقصد یہ ھے کہ خچر ایک اڑیل ضدی اور بے کار جانور ھے لیکن جب اسکو سدھار لیا جاتا ھے تو یہ انتہائی مفید اور اپنی اصل سے بھی کارآمد جانور بن جاتا ھے.
انسان جب جوانی میں قدم رکھتا ھے تو اس میں بھی مستی جوانی کا جوش اور اڑیل پن بھی ھوتا ھے. اگر اسکی اچھی تعلیم و تربیت ھو جائے اور اسے ایک اچھی سمت مل جائے تو وہ اپنے خاندان اور معاشرے کا سرمایہ بن جاتا ھے.
اور اگر تربیت میں کمی یہ غلط سمت میں نکل جائے تو معاشرے کا بگاڑ ھے.
ہمارے ملک کا ایک کھلاڑی ورلڈ کپ جیت لایا. سارے ملک کے بچے جوان بزرگ اسکے گرویدہ ھو گئے.
پھر وہ کپتان سیاست میں آئے. اس ملک کی ایلیٹ کلاس کے نسبتاً بگڑے نوجوان اور نچلے طبقے کے کچھ بےسمت نوجوان آپ کا ٹاررگٹ بنے.
کپتان صاحب ان نوجوانوں کو ہر چیز کی انتہا تک لے گئے. کیا گالی گلوچ کیا بدتمیزی یہاں تک کے مخالف کی جان تک لینے کوتیار ھو جاتے ھیں.
,,بالکل ضدی اڑیل خچر جیسے,,
نوٹ. میری پہلی کوشش ھے. املا کی بیشمار غلطیاں ھونگی اور ربط کی بھی کمی ھے. بہت قلیل وقت میں لکھا ھے. اصلاح و راہنمائی کرکے حوصلہ آفزائی کیجیے. شکریہ.
اچھی کاوش ہے، لکھنا جاری رکھیں - اپنے علاقے بارے تھوڑا زیادہ لکھتے تو بلاگ اور دلچسپ ہو جاتا
ReplyDeleteبہت خوب، ٹیلنٹ ہے کوشش جاری رکھیں، مزید طویل اور دلچسپ بنائیں
ReplyDeleteبہت شکریہ شعیب بھائی. انشاءاللہ آئندہ کوشش کروں گا.آپکی کل والی بات نے ہمت دی اور تقریباً ایک گھنٹے کے اندر لکھ دیا.
ReplyDeleteپہلی کاوش اوروہ بهی خچر پر آپ کے زہن اور مشاہدہ کی داد تو دینی پڑے گی .بہت خوب ہلکے پهلکے انداز میں پوری واٹ لگا دی آپ نے.لکهتے رہیے.اللہ زہنی اور قلبی وسعتیں عطا فرمائے
ReplyDeleteاستعاروں پر لکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ کوشش جاری رکھیے۔۔۔ تھوڑی سی نرمی برتیے کہ بہرحال مناسب رویہ وہی ہے :-)
ReplyDeleteلکھتے رہیے۔۔ مثبت رہیے۔
Nice janab..Jari rakhain
ReplyDeleteعمدہ کوشش ہے۔۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ربط و املاء والے مسئلے بھی حل ہوجائینگے۔ ہر کام میں پختگی پریکٹس سے آتی ہے۔
ReplyDeleteماشااللہ عادی تنولی بھائی بہت خوب لکھا ہے
ReplyDeleteپہلی کوشش کیلئے 👏👏
واہ ویرا کیا بات اے خچر نُوں بہت پالش کر کے وخایا ای محنت تھوڑی جئی ہور کرنی پوے گی تے فیر ایس توں وی ودیا الفاظ دا انتخاب آ جاوے گا۔
ReplyDeleteمزہ آیا پڑھ کے،
قلم چلا کے رکھ تے لِخدا رہ 👍🏽👍🏽