Tuesday, 30 June 2015

اگ لاری بم ڈرائیور



  • جیسے جیسے انسان نے ترقی کی منازل طے کیں نئی نئی ایجادات. ھونا شروع ھوئیں. ہر شعبہ زندگی میں ترقی ھوئی. آمدورفت کے روایتی ذرائع  گھوڑے اونٹ تانگوں,رہٹ کی جگہ سبک رفتار ریل گاڑیوں موٹرکاروں بسوں اور ٹرکوں نے لے لی.آپ کو سڑکوں پہ یہ تیز رفتار اور دیوقامت گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ھیں جن کی وجہ سے مہینوں کا سفر دنوں اور گھنٹوں میں سہولت کے ساتھ طے ھوتا ھے اور ضروریات زندگی کی اشیاء آسانی سے میسر ھوتی ھے.

جب یہ گاڑیاں عام ھونا شروع ھوئیں تو کچھ حادثات بھی ھونا شروع ھوئے پیچیدگیوں کی وجہ سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ھوئی. دنیا کے مہذب ممالک جو کے ان ایجادات کے موجد کنندہ تھے ٹریفک قوانین متعارف کروائے اور عمل درآمد بھی شروع کیا تاکہ حادثات سے بچا جا سکے اور ٹریفک کی روانی میں تعطل نہ آئے.
کسی بھی ملک کا ٹریفک نظام اس ملک کے مجموعی عوامی رویے کی عکاسی کرتا ھے. بدقسمتی سے ہمارا ملک اس معاملے میں بہت پیچھے ھے. قوانین ھونے کے باوجود عمل در آمد نہ ھونے کے برابر ھے.
غلط کراسنگ ون وے و سگنل کی خلاف ورزیاں ہماری قوم کا خاصہ ھیں.
جس کی وجہ سے آئے روز خوفناک حادثات ھوتے ھیں.
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2014ء تک پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ھیں تقریباً. تیرہ ہزار سے زیادہ زخمی ھوتے ھیں. بارہ ہزار سے زیادہ گاڑیاں حادثات کا شکار ھوتی ھیں.
ناچیز کا تعلق بھی میڈیکل کے شعبے سے ہے اور تقریباً روزانہ ہی ہسپتالوں کے چکر لگتے ھیں پیشے کی نوعیت کی وجہ سے مختلف علاقوں کے سفر کا موقع ملتا ھے..دل اس وقت قرب اور اذیت میں مبتلا ھو جاتا ھے جب کسی حادثے کی صورت میں ہسپتال میں زخموں سے چور انسان یا کسی کچلی ھوئی لاش کو لایا جاتا ھے معلوم کرنے پہ پتا چلتا ھے موٹرسائیکل سوار میاں بیوی اور انکے کمسن بچے کو ایک بدمست ڈمپر والا کچل کر بھاگ گیا ھے.
ایسے درجنوں واقعات روزانہ رونما ھوتے ھیں میرے آپ کے رشتہ دار لقمہ اجل بنتے ھیں.
موٹر سائیکل پہ روشن تابناک مستقبل کے خواب سجائے ایک نوجوان دفتر کیلئیے نکلتا ھے تو بےرہم بس والا صرف اپنا پہلا نمبر لکھوانے یا سواری اٹھانے کے چکر میں غلط اوورٹیک کرتے ھوئے اسے کچل دیتا ھے. وہ نوجوان جو بہنوں کا اکلوتا بھائی ماں کی آنکھوں کا تارا اور والد کے بڑھاپے کہا سہارہ ھوتا ھے ایک بے رحم بس ڈرائیور کی نذر ھوجاتا ھے.
یہاں میں خاص طور پر ذکر کروں گا ٹرک اور ڈمپر کا جو کہ لائسنس کے غلط اجراء کی وجہ سے چلتی پھرتی موت ھیں.یہ بغیر انڈیکیٹر لگائے جس طرف مرضی اوور ٹیک کریں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں. پیدل چلنے والی عوام سائیکل و موٹرسائیکل سواروں اور چھوٹی گاڑیوں کو یہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ  نہیں سمجھتے. اکثر نشےکی حالت میں ہوتے ھیں اور گالی گلوچ بھی کرتے ھیں.
یہ اگ لاری اور بم ڈرائیور ہوتے ھیں.

ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کسی ادارے سے تربیت یافتہ نہیں ھوتے بلکہ کنڈکٹری کرتے ھوئے خود سے ھی ڈرائیور بن جاتے ھیں. ڈرائیونگ لائسنس رشوت ستانی سے حاصل کرتے ھیں.
آپ سب جانتے ھیں کہ پوری دنیا میں انتہائی صبر آزما ٹیسٹ کے بعد ڈرائیونگ لائسنس دیا جاتا ھے.
میری حکام سے اپیل ہے کہ ہیوی گاڑیوں کے لائسنس کا میرٹ سخت کیا جائے اور بنیادی تعلیم کی شرط لازمی رکھی جائے.
 حکومت سے اپیل ہیکہ جس طرں کچھ بڑی سڑکوں میں بھاری گاڑیوں اورپبلک ٹرانسپورٹ کیلیے الگ لین ہوتی ھے اسی طرح ایک لین سائیکل اور موٹرسائیکل کیلیے مختص کی جائے تاکہ حادثات کو کم کیا جا سکے
کیونکہ سائیکل اور موٹر سائیکل پہ درمیانہ اور نچلہ درمیانہ طبقہ سفر کرتا ھے حکام سے درخواست ھے انکی حفاظت کو یقینی بنایا جایا.
آپ سب سے درخواست ہے کہ  آپ اپنی آواز  اٹھائیں قانون کی مکمل عمل داری کو یقینی بنایا جائے.
اور قیمتی جانیں بچائی جا سکیں.


نوٹ:. ذیل میں پاکستان میں رونما ھونے والے سالانہ حادثات اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تفصیل ھے.

Monday, 8 June 2015

خچر

میرا تعلق مانسہرہ کے ایک دورافتادہ گاؤں سے ھے
جوکے ایک پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ھے. میرا گاؤں علاقے کی سیاست کا مرکز ہے . بلدیاتی انتخابات میں چیرمین وغیرہ کا عہدہ ہمارے بزرگوں کے پاس ھی رھا ھے. اسکے علاوہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدواروں کی جیت میں بھی ہمارے بڑوں کا کردار کافی اہم ھوتا تھا اور کسی حد تک اب بھی ھے.لیکن ہمارے گاؤں کو کوئی پکی سڑک آج تک نصیب نہ ھوئی اسکی وجہ مقامی لوگوں کی آپسی چپقلش اور اختلافات ھیں.
اور لوگ دوردراز کے سفر اور سودا سلف لانے کیلیئے گھوڑوں گدھوں اور خچروں کا استعمال کرتے تھے.
میرے دادا کے پاس خاندان کے دیگر بزرگوں کی طرح ایک گھوڑی تھی جس پہ سوار ہو کر نزدیکی قصبے میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتے تھے.
میں جب گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں جاتا تو خوب سواری کرتا تھا. .
اس گھوڑی نے ایک خچر کو جنم دیا جو کہ مادہ تھی. میرے دادا جی نے اعلان کیا تھا کہ اس گھوڑی کا پہلا بچہ خدا واسطے کسی کو دے دیں گے جو کہ علاقے کی ایک روایت بھی ھے کہ کسی بھی جانور گائے بھینس وغیرہ کی تولید نہ ھو رہی ھو تو پہلے بچھڑے,کٹے میمنے وغیرہ کو منت کے طور پر خدا واسطے کسی کو دےدیا جاتا ھے. چنانچہ وہ خچر بھی بعد میں کسی کو دے دی گئی.
خچر گھوڑی اور گدھے کے ملاپ سے پیدا ھوتا ھے اور قد میں گدھے سے بڑا اور گھوڑے سے چھوٹا ھوتا ھے. انتہا درجے کا ضدی جانور اور اس کو سدھانا جان جوکھوں کا کام ھے. اسلئے یہ سواری کیلیے کم مال برداری کیلیے زیادہ استعمال ھوتا ھے. . بڑے کہتے ھیں کہ اس کا سوار اگر اس پر سے نیچے گر جائے تو اسکی کوشش ھوتی ھے اسے ہلاک کردے.
واللہ اعلم.
اگر یہ سدھر جائے تو انتہائی مفید جانور ھے فوج دشوار گزار پہاڑی راستوں میں اس سے مال برداری کا کام لیتی ھے اور ہمارے علاقے میں جنگلات کی صفائی کا دہندہ عروج پر ھے قیمتی لکڑی اسی پہ لاد کر ھی لے جائی جاتی ھے اسلیے اسکی قیمت بھی لاکھوں میں ھوتی ھے.
سارے پسمنظر کا مقصد یہ ھے کہ خچر ایک اڑیل ضدی اور بے کار جانور ھے لیکن جب اسکو سدھار لیا جاتا ھے تو یہ انتہائی مفید اور اپنی اصل سے بھی کارآمد جانور بن جاتا ھے.
انسان جب جوانی میں قدم رکھتا ھے تو اس میں بھی مستی جوانی کا جوش اور اڑیل پن بھی ھوتا ھے. اگر اسکی اچھی تعلیم و تربیت ھو جائے اور اسے ایک اچھی سمت مل جائے تو وہ اپنے خاندان اور معاشرے کا سرمایہ بن جاتا ھے.
اور اگر تربیت میں کمی یہ غلط سمت میں نکل جائے تو معاشرے کا بگاڑ ھے.
ہمارے ملک کا ایک کھلاڑی ورلڈ کپ جیت لایا. سارے ملک کے بچے جوان بزرگ اسکے گرویدہ ھو گئے.
پھر وہ کپتان سیاست میں آئے. اس ملک کی ایلیٹ کلاس کے نسبتاً بگڑے نوجوان اور نچلے طبقے کے کچھ بےسمت نوجوان آپ کا ٹاررگٹ بنے.
کپتان صاحب ان نوجوانوں کو ہر چیز کی انتہا تک لے گئے. کیا گالی گلوچ کیا بدتمیزی یہاں تک کے مخالف کی جان تک لینے کوتیار ھو جاتے ھیں.


,,بالکل ضدی اڑیل خچر جیسے,,

نوٹ. میری پہلی کوشش ھے. املا کی بیشمار غلطیاں ھونگی اور ربط کی بھی کمی ھے. بہت قلیل وقت میں لکھا ھے. اصلاح و راہنمائی کرکے حوصلہ آفزائی کیجیے. شکریہ.