- جیسے جیسے انسان نے ترقی کی منازل طے کیں نئی نئی ایجادات. ھونا شروع ھوئیں. ہر شعبہ زندگی میں ترقی ھوئی. آمدورفت کے روایتی ذرائع گھوڑے اونٹ تانگوں,رہٹ کی جگہ سبک رفتار ریل گاڑیوں موٹرکاروں بسوں اور ٹرکوں نے لے لی.آپ کو سڑکوں پہ یہ تیز رفتار اور دیوقامت گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ھیں جن کی وجہ سے مہینوں کا سفر دنوں اور گھنٹوں میں سہولت کے ساتھ طے ھوتا ھے اور ضروریات زندگی کی اشیاء آسانی سے میسر ھوتی ھے.
جب یہ گاڑیاں عام ھونا شروع ھوئیں تو کچھ حادثات بھی ھونا شروع ھوئے پیچیدگیوں کی وجہ سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ھوئی. دنیا کے مہذب ممالک جو کے ان ایجادات کے موجد کنندہ تھے ٹریفک قوانین متعارف کروائے اور عمل درآمد بھی شروع کیا تاکہ حادثات سے بچا جا سکے اور ٹریفک کی روانی میں تعطل نہ آئے.
کسی بھی ملک کا ٹریفک نظام اس ملک کے مجموعی عوامی رویے کی عکاسی کرتا ھے. بدقسمتی سے ہمارا ملک اس معاملے میں بہت پیچھے ھے. قوانین ھونے کے باوجود عمل در آمد نہ ھونے کے برابر ھے.غلط کراسنگ ون وے و سگنل کی خلاف ورزیاں ہماری قوم کا خاصہ ھیں.
جس کی وجہ سے آئے روز خوفناک حادثات ھوتے ھیں.
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2014ء تک پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ھیں تقریباً. تیرہ ہزار سے زیادہ زخمی ھوتے ھیں. بارہ ہزار سے زیادہ گاڑیاں حادثات کا شکار ھوتی ھیں.
ناچیز کا تعلق بھی میڈیکل کے شعبے سے ہے اور تقریباً روزانہ ہی ہسپتالوں کے چکر لگتے ھیں پیشے کی نوعیت کی وجہ سے مختلف علاقوں کے سفر کا موقع ملتا ھے..دل اس وقت قرب اور اذیت میں مبتلا ھو جاتا ھے جب کسی حادثے کی صورت میں ہسپتال میں زخموں سے چور انسان یا کسی کچلی ھوئی لاش کو لایا جاتا ھے معلوم کرنے پہ پتا چلتا ھے موٹرسائیکل سوار میاں بیوی اور انکے کمسن بچے کو ایک بدمست ڈمپر والا کچل کر بھاگ گیا ھے.
ایسے درجنوں واقعات روزانہ رونما ھوتے ھیں میرے آپ کے رشتہ دار لقمہ اجل بنتے ھیں.
موٹر سائیکل پہ روشن تابناک مستقبل کے خواب سجائے ایک نوجوان دفتر کیلئیے نکلتا ھے تو بےرہم بس والا صرف اپنا پہلا نمبر لکھوانے یا سواری اٹھانے کے چکر میں غلط اوورٹیک کرتے ھوئے اسے کچل دیتا ھے. وہ نوجوان جو بہنوں کا اکلوتا بھائی ماں کی آنکھوں کا تارا اور والد کے بڑھاپے کہا سہارہ ھوتا ھے ایک بے رحم بس ڈرائیور کی نذر ھوجاتا ھے.
یہاں میں خاص طور پر ذکر کروں گا ٹرک اور ڈمپر کا جو کہ لائسنس کے غلط اجراء کی وجہ سے چلتی پھرتی موت ھیں.یہ بغیر انڈیکیٹر لگائے جس طرف مرضی اوور ٹیک کریں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں. پیدل چلنے والی عوام سائیکل و موٹرسائیکل سواروں اور چھوٹی گاڑیوں کو یہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتے. اکثر نشےکی حالت میں ہوتے ھیں اور گالی گلوچ بھی کرتے ھیں.
یہ اگ لاری اور بم ڈرائیور ہوتے ھیں.
ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کسی ادارے سے تربیت یافتہ نہیں ھوتے بلکہ کنڈکٹری کرتے ھوئے خود سے ھی ڈرائیور بن جاتے ھیں. ڈرائیونگ لائسنس رشوت ستانی سے حاصل کرتے ھیں.
آپ سب جانتے ھیں کہ پوری دنیا میں انتہائی صبر آزما ٹیسٹ کے بعد ڈرائیونگ لائسنس دیا جاتا ھے.
میری حکام سے اپیل ہے کہ ہیوی گاڑیوں کے لائسنس کا میرٹ سخت کیا جائے اور بنیادی تعلیم کی شرط لازمی رکھی جائے.
حکومت سے اپیل ہیکہ جس طرں کچھ بڑی سڑکوں میں بھاری گاڑیوں اورپبلک ٹرانسپورٹ کیلیے الگ لین ہوتی ھے اسی طرح ایک لین سائیکل اور موٹرسائیکل کیلیے مختص کی جائے تاکہ حادثات کو کم کیا جا سکے
کیونکہ سائیکل اور موٹر سائیکل پہ درمیانہ اور نچلہ درمیانہ طبقہ سفر کرتا ھے حکام سے درخواست ھے انکی حفاظت کو یقینی بنایا جایا.
آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ اپنی آواز اٹھائیں قانون کی مکمل عمل داری کو یقینی بنایا جائے.
اور قیمتی جانیں بچائی جا سکیں.
نوٹ:. ذیل میں پاکستان میں رونما ھونے والے سالانہ حادثات اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تفصیل ھے.
